شہریت دینے میں آسام کی تقافتی شناخت متاثر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں: چیف جسٹس
جمعیۃعلماء ہند کےارشدمدنی کی جانب سے کپل سبل، سلمان خورشید، اندراجے سنگھاوردیگر سینئروکلاء نے معاملہ کی پیروی کی
نئی دہلی: 5/ دسمبر2023 سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے آسام شہریت معاملے کی حتمی سماعت شروع کی، چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سریا کانت، جسٹس ایم ایم سندریش، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراء پر مشتمل آئینی بینچ نے تمام عرضداشتوں پر یکجا سماعت کئے جانے کا فیصلہ کیا۔ آج سینئر ایڈوکیٹ شیام دیوان نے بحث کا آغاز کیا اورعدالت کو اس پور ے مقدمہ کے بارے میں تفصیل سے جانکاری دی۔آئینی بینچ سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ 6A/ کی آئینی حیثیت پر سماعت کررہی ہے۔ دفعہ 6A/ کے تحت مختلف تاریخوں پر ہندوستان میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، دفعہ 6A/ کو غیر قانونی قرار دینے کے لئے مختلف تنظیموں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے جس پر سپریم کورٹ آف انڈیا کی آئینی بینچ سماعت کررہی ہے۔دوران بحث ایڈوکیٹ شیام دیوان نے مختلف رپورٹوں کے حوالے سے بتایا کہ غیر قانونی تارکین کی وجہ سے آسامی لوگوں کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے، اوریجنل آسامی باشندے کئی اضلاع میں اقلیت میں آگئے ہیں۔ایڈوکیٹ شیام دیوان نے عدالت کو مزید بتایا کہ سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ 6A/ بنانے کے لئے مضبوط جواز نہیں دیا گیا بلکہ یہ کہنا کہ سیاسی تصفیہ تھا درست نہیں ہوگا۔شیام دیوان نے عدالت کو مزید بتایا کہ غیر قانونی تارکین کو قانو نی شہریت دینا ایک حساس مسئلہ ہے جس پر عدالت کو ہندوستانی مفاد کو مد نظر رکھنا ہوگا، آسامیوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہوگی۔عدالت کے سامنے شہریت کی بنیاد 71 19 ہو یا 1951ہونی چاہئے پر بحث چل رہی ہے۔دسمبر 2014 میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے 13 / سوالات تیار کئے تھے جس کی روشنی میں مقدمہ کی سماعت کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔دوران سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا سے پوچھا کہ سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ 6A/ کے تحت کتنے لوگوں کو سٹیزن شپ دی گئی ہے یا کتنے لوگوں نے سٹیزن شپ حاصل کی؟ تشار مہتا نے چیف جسٹس کو بتایاکہ وہ اس تعلق سے عدالت کو اعداد و شمار حاصل کرنے کے بعد مطلع کریں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے زبانی تبصرہ میں مدعی کے وکیل شیام دیوان سے کہا کہ آج عدالت کے سامنے ایسا کوئی مواد نہیں ہے اگر کوئی ایسا مواد ہے تودکھاؤکہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ 1966-1971 کے درمیان آنے والے شہریوں کو مراعات دینے سے آسام ریاست کی تقافتی شناخت متاثر ہوئی ہو چیف جسٹس آف انڈیا نے مزید کہا کہ شہریت قانون کی دفعہ 6A/ کا نفاذ ایک انسانی اقدام کے تحت کیا گیا جو ہماری تاریخ سے جڑا ہوا ایک اہم حصہ ہے۔آج سماعت نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے بقیہ سماعت کل کئے جانے کا حکم جاری کیا،چیف جسٹس آف انڈیا نے ایڈوکیٹ شیام دیوان کو حکم دیا کہ وہ کل ایک بجے تک اپنی بحث کا اختتام کریں،کل دوپہر کے بعد سالیسٹر جنرل آف انڈیا اور سٹیزن شپ کی حمایت کرنے والے وکلاء بحث کا آغاز کرسکتے ہیں اگر ایک بجے تک شیام دیوان اور دیگر وکلاء بحث کا اختتام کردیتے ہیں۔ واضح ر ہے کہ آسام میں شہریت کے تعین کے لئے 1951کے شہریت ایکٹ میں سیکشن 6Aشامل کرکے شہریت کی بنیاد25/مارچ 1971کو حتمی تاریخ تسلیم کئے جانے کو باقاعدہ پارلیمنٹ میں منظوری دی گئی تھی، یہ ترمیم 15/اگست 1985کو آسام کی ریاستی سرکار اورمرکز کے درمیان ہوئے ایک اہم معاہدہ کی تکمیل میں کی گئی تھی، اس کے بعد آسام میں شہریت کا معاملہ تقریبا ختم ہوگیا تھا لیکن 2012میں بعض فرقہ پرست تنظیموں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے مطالبہ کیا کہ شہریت کی بنیاد25/مارچ 1971کے بجائے 1951کی ووٹرلسٹ کو بنایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ اسی عرضی میں آسام معاہدہ کی قانونی حیثیت اورشہریت ایکٹ میں 6Aکی دفعہ کے اندراج کو بھی چیلنچ کیاگیا، اس معاملہ کو سپریم کورٹ نے جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس نریمن پر مشتمل ایک دورکنی بینچ کے سپردکردیاتھا جس نے 13سوالات قائم کرکے مقدمہ کو ایک پانچ رکنی آئینی بینچ کے حوالہ کردیاتھاجو اس مقدمہ کی سماعت کررہی ہے، اس اہم مقدمہ میں جمعیۃعلماء ہند روز اول سے ہی ایک اہم فریق ہے، آج جمعیۃعلماء ہند اورآمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ وکیل مسٹرکپل سبل،سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید، سینئرایڈوکیٹ اندراجے سنگھ، ایڈوکیٹ مصطفی خدام حسین اورایڈوکیٹ آن ریکارڈفضیل ایوبی بحث کریں گے۔واضح ہوکہ راجیوگاندھی کے دورحکومت میں جب شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے شہریت کے لئے 25/مارچ 1971کو کٹ آف تاریخ رکھا گیا تھا تو اس ترمیم کو تمام اپوزیشن پارٹیوں نے تسلیم کیا تھا ان میں بی جے پی بھی شامل تھی۔